قحطُ الرجال محض یہ نہیں کہ اہلِ کمال کم ہو جائیں، بلکہ اصل قحط یہ ہے کہ ایک قوم اپنے اصل ہیروز کو فراموش کر کے جعلی ہیروز کو سامنے لے آئے۔ یہی المیہ آج ہماری ریاست کا ہے۔
سوچیے اور دیکھیے!
کیا ہمارے صدارتی تمغوں اور قومی ایوارڈز میں کوئی ایک سائنسدان ہے جس نے اجناس یا سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کا کوئی نیا طریقہ دریافت کیا ہو؟
کیا کوئی آبی ماہر ہے جس نے بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ اور قابلِ استعمال بنانے کی کوئی جدید تکنیک پیش کی ہو؟

کیا کوئی ڈاکٹر ہے جس نے انسانوں، جانوروں یا زراعتی بیماریوں کے علاج کی کوئی نئی دوا ایجاد کی ہو؟
کیا کوئی انجینیئر ہے جس نے تعمیرات، طب یا کیمیا میں دنیا کو کوئی نئی ایجاد دی ہو؟
کیا کوئی معیشت دان ہے جس نے ہمیں قرضوں کی غلامی سے نجات دلانے کا کوئی راستہ دکھایا ہو؟
افسوس! ہمارے قومی اعزازات کی فہرست میں ایسے نام کم ہیں، اور زیادہ وہ لوگ ہیں جن کا کمال صرف گانا، ناچنا یا تماشا دکھانا ہے۔ جب ایسے ہی لوگ “قوم کے فخر” قرار پائیں تو یہی تو قحطُ الرجال ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ انہی تمغوں سے بعض ایسے افراد کو بھی نوازا گیا ہے جو نیب کے کیسز میں نامزد ہیں، کچھ کے خلاف انٹرپول کے ریڈ وارنٹ جاری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے “ستارہ امتیاز” اور “قومی اعزازات” کا معیار آخر کیا ہے؟ کیا یہ واقعی علم، خدمت اور قربانی کے اعتراف میں دیے جاتے ہیں یا پھر تعلقات، خوشامد اور سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر بانٹے جاتے ہیں؟
قوموں کی بقا ان کے اصل ہیروز سے جڑی ہوتی ہے۔ جب ایک قوم اپنے سائنسدانوں، محققین، اساتذہ اور محنت کشوں کو نظر انداز کر کے گلیمر، رسومات اور دکھاوے کو اعزاز بنائے، تو وہ قوم زوال کی کھائی میں جا گرتی ہے۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے — ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ آنے والی نسلوں کو کن ناموں کے سائے میں پرورش دینی ہے۔ کیا وہ نام جنہوں نے علم و تحقیق کو آگے بڑھایا، یا وہ جو صرف وقتی تفریح کا سامان بنے؟
(مصنف سابق چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے، سابق وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار ہیں)
ڈسکلیمر: اس ویب سائٹ پر شائع کیے گئے خیالات مصنفین کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ اس ویب سائٹ یا اس کے منتظمین کی رائے کے بھی عکاس ہوں۔