امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا کے فوجی بیس پر تقریباً چار گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات میں یوکرین جنگ پر کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہ آسکا۔ دونوں رہنماؤں نے بات چیت کو مثبت اور تعمیری قرار دیا لیکن جنگ بندی پر حتمی معاہدہ نہیں ہوسکا۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر سے ملاقات میں کئی امور پر پیش رفت ہوئی ہے مگر یوکرین تنازع کے حل کے لیے مزید مذاکرات ضروری ہیں۔ انہوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی اور نیٹو رہنماؤں سے رابطے کا عندیہ دیا اور کہا کہ ممکن ہے آئندہ کسی سمجھوتے تک پہنچا جائے۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین میں دیرپا امن کے لیے تنازع کے بنیادی اسباب ختم کرنا ہوں گے۔ ان کے مطابق روس اس صورتحال کے خاتمے کا خواہاں ہے لیکن سلامتی کے تمام خدشات کو دور کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر 2022 میں ٹرمپ صدر ہوتے تو جنگ کی نوبت نہ آتی۔
ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار انداز میں مصافحہ کیا اور باضابطہ اجلاس میں وزرائے خارجہ سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔ پیوٹن نے ٹرمپ کو ماسکو میں اگلی ملاقات کی دعوت دی جسے امریکی صدر نے قبول کر لیا۔