اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے لیے 2.3 ارب ڈالر کے دو مالیاتی پیکیجز کی منظوری دے دی ہے، جن میں 1.3 ارب ڈالر کا نیا پروگرام بھی شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کی منظوری دی، جبکہ 1.3 ارب ڈالر کا نیا ریذیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسیلٹی (RSF) پروگرام بھی منظور کر لیا گیا ہے، جو 28 ماہ میں مکمل ہوگا۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بورڈ اجلاس کے دوران منظوری رکوانے کی کوشش کی، تاہم صرف 2.7 فیصد ووٹنگ پاور کے باعث اس کی کوشش ناکام رہی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی بہتر مالی کارکردگی اور اصلاحات کو بنیاد بنا کر پیکیجز کی منظوری دی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے فوری طور پر ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی، جس کے بعد EFF پروگرام کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر 2.1 ارب ڈالر حاصل ہو چکے ہوں گے۔ جبکہ 1.3 ارب ڈالر کا RSF پیکیج آئندہ 28 ماہ میں مرحلہ وار جاری کیا جائے گا۔
یہ پیش رفت مارچ میں اسٹاف لیول معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے، جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اصلاحاتی پیش رفت پر اتفاق ہوا تھا۔ اس معاہدے کی حتمی منظوری اب بورڈ نے دے دی ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے پروگرام کو بحال رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جبکہ ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے سیاسی جماعتوں سے رابطے کر کے سندھ اور بلوچستان میں زرعی آمدن پر ٹیکس جیسے اہم اقدامات مکمل کروائے۔
نئے پروگرام کے تحت پاکستان جولائی سے کاربن لیوی نافذ کرے گا اور اگلے سال سے پانی کے استعمال پر چارجز میں اضافہ کیا جائے گا۔ حکومت نے 2035 تک اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اسٹڈی پر بھی آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مالی نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوگا اور غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، تاکہ قرضوں کا بوجھ کم کیا جا سکے اور نجی سرمایہ کاری کے لیے جگہ پیدا ہو۔